From Pakistan

Autism Stories from Pakistan

I’m a mother of an mild autistic child who is five yrs now. I belong to a rural area of Azad Kashmir. I never knew about autism before. I thought that my son has a speech delay issue as many children in my family has this issue . One day I took him to doctor who asked his name . My son didn’t reply him ND I told Dr that he does not listen to me n never response me. Dr advised me to take him to Islamabad as there is no such centers in Azad Kashmir. So I took him to autism society Islamabad where he was diagnosed with autism. I searched on internet about autism ND I got depressed by my search. I found a child psychologist in Jhelum . So I used to take him daily for sessions for six months and now he has got 100 command following. But many schools denied to give him admission saying they can’t handle autistic children ND special schools rejected him saying that he is normal. After so much effort now he has got admission in a well-known school where he is enjoying his days while acquiring good education

From: Salma Hanif

…………………………………………………………………………………………

میری کہانی ۔ 
جی میں تو سب سے پہلے یہی کہوں گی کہ کسی کی نہ سنیں اپنے بچوں کے بارے میں اور جب بچہ ایک سال کا ہو جاتا ہے تو کچھ ورڈاور سب کی پہچان ہو جاتی ہے اگر یہ سب نہیں ہے تو فوراً غور کریں سب یہی کہتے ہیں کہ ابھی چھوٹا ہے تو کوئی بات نہیں کر لے گا یا اس کے چاچو بھی نہیں بولتا تھا بچے بولتے ہیں لیٹ پر کچھ سمجھ تو ہو ہر کی بات سمجھنے کے لئے میں اپنے بیٹے کے لئے ایک سال سے ہی شروع ہو گئی
مجھے بھی سب ایسے ہی کہتے تھے پر میں نے پوری کوشش کی ہے اپنے بیٹے کے لئے .
میں بائیو ٹریٹمنٹ بھی کروا رہی ہوں اللہ کا شکر ہے اب میرا بیٹا کافی کچھ بولتا ہے مجھے اپنی نیڈ بتا دیتے ہیں
اگر شروع میں ہی دیکھ لیں کہ ہمارے بچے کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے کیونکہ سب سے زیادہ ماں جانتی ہے اپنے کو کہ کوئی مسئلہ ہے میرا بیٹا جب سے پیدا ہوا تھا تب سے بہت روتا تھا میں نے کوئی ڈاکٹر نہیں چھوڑا پھر مجھے کسی نے ڈاکٹر ثناء کا بتایا تو اب ان سے ٹریٹمنٹ کروا رہی ہوں کیونکہ تھراپی نہیں کروا سکتی کیونکہ جہاں میں رہتی ہوں کوئی تھراپی سنٹر نہیں ہے اور نہ ہی میں اتنا دے سکتی ہوں.
اور سب یہی کہتے ہیں کہ ماں سے بڑھ کر کوئی تھراپی نہیں
مجھے شروع میں بہت مشکل آئ میرے سسرال والے میرے اپنے بہن بھائی کہتے تھے تم پاگل ہو تمہارا بچہ ٹھیک ہے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں میں نے بہت کوشش کی اپنے ہسبنڈ کو میں نے بار بار اسی موضوع پر بات کی حتی کہ مجھ سے کوئی بات نہیں کرتا تھا کہ یہ پاگل ہو گئی ہے اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ میں دن رات روتی تھی کیونکہ مجھے اس کے بارے میں پتا ہی نہیں تھا میں نے یو ٹیوب دیکھا اور گروپس جوائن کیے پر وہ باتیں مجھے سمجھ نہیں لگتی تھی ساتھ میں میری بیٹی بھی ہونے والی تھی مجھے گروپ والوں نے بہت اچھا سمجھایا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا ابھی یہ چھوٹا ہے ٹھیک ہو جائے گا ٹائم دو میں ہر وقت بیٹے کی رات کو 2 بجے اٹھ جاتا تو اس وقت بھی کوئی نہ کوئی چیز بتا جاتا بہت زیادہ پریشان ہو گئ تھی میں کہ چھوٹا ہے ابھی غور کر لو تو کچھ ہو جائے گا
سب کچھ بھول گئ تھی میں اپنا منہ ھاتھ دھونا بھول گئ .اگر ماں نہیں کرتی یا اس کو ایک منٹ چھوڑ دیتی تو دل کہتا کہ تم ٹائم خراب کر رہی ہو۔ پر پریشانی کی وجہ سے نیند بہت آتی تھی – پر اب اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کافی بہتر ہیں میں آپی کے گئ ہوئ تھی باہر تو پھر مجھے کسی نے کہا کہ بچہ بڑا ہو جائے گا تو ٹھیک ہو جائے گا میں وہاں واپس آ گئ سب کہتے کہ تم ہسبنڈ کے پاس تھیں یہ سب کیسے کرو گی گھر کے کام کرو گی ان کو دیکھو گی میں نے کہا بھی میں کر لوں گی پر اب بچوں میں رہتا ہے تو بہت کچھ سیکھا ہے پہلے تو اس کو شاپ کا چیز کا روٹی پانی کا کچھ بھی نہیں پتہ تھا اب سب پتا ہے
…………………….
میری پہچان — فائق کی ماں، روحی فاطمہ
میں روحی فاطمہ ہوں — ایک معلمہ، ایک ماں، اور ایک سیکھتی ہوئی روح۔ تدریس کے شعبے میں میرا 35 سالہ سفر علم و آگہی سے بھرپور ہے، لیکن میری اصل تعلیم اُس دن شروع ہوئی جب میرے بیٹے فائق احمد کی تشخیص آٹزم اور سیریبرل پالسی (CP) کے ساتھ ہوئی۔ اُس دن میری دنیا بدلی، میرے نظریے بدلے، اور میرے جینے کا مقصد بدل گیا۔
یہ کوئی آسان سفر نہ تھا، لیکن فائق نے مجھے وہ سکھایا جو دنیا کی بہترین جامعات بھی نہ سکھا سکیں۔ اُس کی خاموشیاں میرے لیے زبان بن گئیں، اُس کی نظر کی جھلک میرے لیے پیغام بن گئی، اور اُس کی ہر پیش رفت میرے لیے جشن۔
آج فائق احمد نہ صرف تعلیمی میدان میں نمایاں ہے، بلکہ ایک سمجھدار، نیک سیرت، اور خدا ترس مسلمان بھی ہے۔ میری آنکھیں شکر سے بھیگ جاتی ہیں جب میں دیکھتی ہوں کہ وہ گزشتہ دو برسوں سے بلا ناغہ تہجّد کی نماز ادا کر رہا ہے۔ اُس کا دل عبادت میں رچ بس چکا ہے۔ اُس کا سجدہ صرف زمین پر نہیں، دل کی گہرائیوں میں بھی محسوس ہوتا ہے۔
فائق کی شخصیت میرے لیے ایک مکمل درسگاہ ہے — جہاں صبر، ہمت، شکر اور عشقِ الٰہی ہر دن نئے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اُس نے مجھے سکھایا کہ ہر بچہ اپنی فطرت کے ساتھ آتا ہے، اور جب ہم اُسے اُس کی اصل کے مطابق قبول کرتے ہیں، تو وہ اپنی روشنی سے سب کو منور کرتا ہے۔
میں نے فروبل، پیاجے، اور ویگوٹسکی کے تعلیمی اصولوں کو اپنے تجربات میں جذب کیا، اور ایک ایسا تعلیمی ماحول تشکیل دیا جہاں ہر بچہ، چاہے وہ نیوروڈیورجنٹ ہو یا ٹیپیکل، خوشی اور اعتماد کے ساتھ سیکھے — زبردستی نہیں، دلچسپی سے؛ خوف سے نہیں، محبت سے۔
فائق میرا فخر ہے، میرا غرور ہے، اور وہ چراغ ہے جس نے میری زندگی کو علم و عرفان سے روشن کر دیا ہے۔
یہ اکیس سالہ سفر میرے لیے محض وقت کا گزر نہیں، بلکہ ایک مسلسل روحانی، جذباتی اور فکری ارتقا کی داستان ہے۔
میری دلی تمنا ہے کہ میری کہانی اُن ماؤں کے لیے ایک اُمید بنے جو اپنے بچوں میں کمی نہیں، خدائی حکمت تلاش کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو اپنی طاقت مان لیں، تو وہ دنیا کے سامنے صرف کامیاب نہیں، باعزت، باوقار اور روشن مثال بن کر اُبھرتے ہیں۔
.
…………

A Mother’s Journey: Embracing Neurodiversity through Love, Struggle, and Purpose

By Uzma Gilani – Volunteer at AWB and Alkhidmat, Coordinator AWB, Education Officer, Quetta, Baluchistan
My journey as a mother began with both joy and unexpected trials. My son, Mohammad Affan, was born prematurely at 35 weeks, facing birth asphyxia and multiple complications. As he grew, he remained non-verbal and exhibited hyperactive behavior, with evident learning difficulties. It was a painful and confusing time, as I struggled to understand what he was going through. I traveled across the country in search of treatment, clinging to hope. Eventually, I came to a powerful realization—autism has no “cure,” but it can be managed with understanding, love, and the right support.
This understanding became a turning point in my life. I stopped looking for a way to “fix” my child and started seeing the world through his eyes. I committed myself to learning everything I could about autism and neurodiversity. I took courses, did extensive research, and most importantly, I listened to my child—his silence, his behaviors, his ways of expressing joy, discomfort, and love. Through this, I began to connect with him and understand his unique world.
My son became my greatest teacher and inspiration. Motivated by his journey, I began working with other children with special needs and initiated the establishment of an Early Childhood Education (ECE) center focused on inclusive learning. I started conducting awareness sessions for teachers and parents, joined Autism Without Borders (AWB), and began volunteering with Alkhidmat. I visited schools, organized orientations, and led discussions about autism and the importance of acceptance and early intervention.
As an Education Officer and a passionate advocate for neurodiversity, I now work with communities to raise awareness and support families who are on similar journeys. My mission is to ensure that every child, regardless of their neurological makeup, is seen, heard, and given the opportunity to thrive.
This is not just my story—it is the story of every mother, every family who learns to rise with love and courage. Through my son, I found my purpose. Through service, I found my strength. And through awareness, I strive to build a society that embraces every mind, every child.

Autism without Borders